رفتہ رفتہ ہر اک گھاؤ بھر جاتا ہے
پہلے پہل ہم تجھ سے بچھڑ کر اور ہی کچھ تھے سینے میں تھا درد مگر ہونٹوں پہ تبسم باہر ہم کچھ اور تھے اندر اور ہی کچھ تھے
معلیٰ
پہلے پہل ہم تجھ سے بچھڑ کر اور ہی کچھ تھے سینے میں تھا درد مگر ہونٹوں پہ تبسم باہر ہم کچھ اور تھے اندر اور ہی کچھ تھے
ہم سب کے لیے ہے ترا دربارِ عنایت تو شاہِ زمن، روحِ جہاں، مالکِ کونین سجتی ہے ترے سر پہ ہی دستارِ عنایت
حبِ آل بتول کافی ہے جب سے تھاما ہے دامن زہرا رحمتوں کا نزول کافی ہے
میرے آقا! طالبِ الطاف ہوں جنتِ طیبہ کا مژدہ ہو عطا مضطرب بیٹھی سرِ اعراف ہوں
ابنِ حیدر تری زکوٰۃ میں ہے پیاس دیکھی ہے اس نے اصغر کی اب تلک تشنگی فرات میں ہے
یعنی طریقِ صبر و رضا کی نہیں مثال سر دے کے سرفراز ہیں، نازِ حیات ہیں آل نبی کی طرزِ ادا کی نہیں مثال
اتنا گھٹا، کہ خاک پہ سایہ سا رہ گیا ہنگامہ ہائے کارگہِ روز و شب نہ پوچھ اتنا ہجوم تھا ، کہ میں تنہا سا رہ گیا
ایسے میں خاک، سوچ کو رستہ دکھائی دے دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد پنجوں کے بل کھڑا ہے، کہ اونچا دکھائی دے
کوئی بوصیری کوئی سعدیٔ شیراز ہوا منتظر میں بھی ہوں طیبہ سے ملے یہ پیغام زُمْرَۂ نعت نگاراں میں تُو ممتاز ہوا
وہ لوگ ہو گئے تیار گھر بدلنے تک کمال اس نے کیا اور میں نے حد کر دی کہ خود بدل گیا اس کی نظر بدلنے تک