وہاں اک موجِ بے حس ہے کہ آنکھیں نم نہیں کرتی
یہاں آبِ ندامت میں جبینیں ڈوب جاتی ہیں یہ موجِ بے حسی بن کر سُونامی جان لے لے گی سفینے برطرف اِس میں زمینیں ڈوب جاتی ہیں
معلیٰ
یہاں آبِ ندامت میں جبینیں ڈوب جاتی ہیں یہ موجِ بے حسی بن کر سُونامی جان لے لے گی سفینے برطرف اِس میں زمینیں ڈوب جاتی ہیں
کہ میں خوشبو کا لہجہ جانتا ہوں سمندر بن کے جو ملتا ہے مجھ کو میں اس کو قطرہ قطرہ جانتا ہوں
بلا کا سایہ مرے آس پاس کیسا ہے یہ فیصلہ ہے کہ ہم اپنے حق سے باز آئیں تو پھر یہ لہجہ یہ ترا، التماس کیسا ہے
منزلیں دور ہیں قدموں کو ہلاتے رہنا میں حدی خواں ہوں مرا کام صدائیں کرنا میری آواز میں آواز ملاتے رہنا
واقعہ اپنے بکھرنے کا سبھی نے دیکھا لوگ پتھر تھے یا پھر ہم تھے شہاب ثاقب ٹوٹ کر گرنے سے پہلے نہ کسی نے دیکھا
ہم سے بڑھ کر تو کوئی خاک میں کھویا بھی نہ تھا پھر بھی وہ کاٹ رہے ہیں کہ جو بویا بھی نہ تھا رستے طویل ہو گئے یا گھٹ گیا ہے دن اب تک سفر نہیں کٹا اور کٹ گیا ہے دن
ہماری عید یہی ہے کہ تم سے بات کریں تمہارے شوخ لبوں سے چرا کے شرماہٹ گلاب و لالۂ و سنبل کے رنگ مات کریں
گھر کے آنگن میں نظر آتے ہیں اب چولہے کئی چار آنکھیں چاہییں اس کی حفاظت کے لیے آنے جانے کے لیے جس گھر میں ہوں رستے کئی
سہما ہوا ہے کمرے میں برسوں کا انتظار جالے ہیں فرقتوں کے کواڑوں کے بیچ میں اک شخص ٹوٹ کر ہوا کچھ اور پُر بہار اُگتے ہوں جیسے پھول دراڑوں کے بیچ میں
اخبار کی خبر کا تراشہ نہیں بنے کمزوری مت سمجھنا ہماری مٹھاس کو مصری صفت ہوئے ہیں، بتاشہ نہیں بنے