غیروں کو مل گیا ہے بڑے کام کا خُدا
اپنا خُدا تو نکلا فقط نام کا خُدا حد ہے، خُداؤں کے بھی ہیں اوقاتِ کار کیا؟ یہ صبح کا خُدا ہے تو وہ شام کا خُدا
معلیٰ
اپنا خُدا تو نکلا فقط نام کا خُدا حد ہے، خُداؤں کے بھی ہیں اوقاتِ کار کیا؟ یہ صبح کا خُدا ہے تو وہ شام کا خُدا
اُس نے گر ہم پہ برسنا ہے تو چھم چھم برسے تُو نے جھیلی ہے کبھی ایسی اذیت جس میں؟ لبِ خاموش ہنسے، دیدۂ پُرنم برسے ؟
جشنِ شکستِ دل ہے ، مئے سُرخ لائی جائے سیراب ہونٹ کیسے کہیں تشنگی پہ شعر؟ سو پہلے اِن کو پیاس کی لذّت چکھائی جائے
منظر کو ایک قسم سے آگے بھی دیکھیے کچھ اور بھی ہیں راز خدوخال سے پرے عورت کو اُس کے جسم سے آگے بھی دیکھیے
یوں کب تلک جیئیں گے بھلا ہم اُداس لوگ مطلب نہ تو کیسے ملیں اور کیوں ملیں ؟ ہم جیسے عام لوگوں سے تُم جیسے خاص لوگ
یہ اذیت ہے جو حددرجہ بُری ہوتی ہے بس وہی عشق ہے جو پہلے پہل ہوتا ہے دوسری بار فقط خانہ پُری ہوتی ہے
بچھڑنے والے بھی شرطیں کڑی لگاتے ہیں جناب ان کے تعارف میں اتنا کہنا ہے کلائی میں بڑی عمدہ گھڑی لگاتے ہیں
ورنہ تصویر تو دو تین سے بن سکتی تھی تم نے مانگی ہی نہیں ساتھ دعائیں میرے بات بگڑی ہوئی ، آمین سے بن سکتی تھی
کبھی پالی نہیں یاقوت اور مرجان کی خواہش بڑے خوابوں کو لازم تو نہیں آنکھیں بڑی کومل کیاری سے میں پوری کررہی ہوں لان کی خواہش
اس تسلی سے کہ تقسیم ادھوری نہ رہے اب کسی اور پہ مت وردِ محبت پڑھنا اب کسی اور کی تعلیم ادھوری نہ رہے