خدا کی یاد سینے میں سمائے
تصور میں، خیالوں پر وہ چھائے نِدائے سرمدی کانوں کو بھائے ظفرؔ پر بھی خدا وہ وقت لائے
معلیٰ
تصور میں، خیالوں پر وہ چھائے نِدائے سرمدی کانوں کو بھائے ظفرؔ پر بھی خدا وہ وقت لائے
محبت سے اُسے رو رو مناؤ گے نہ جب تک عقیدت سے اُسے دل میں بٹھاؤ گے نہ جب تک تنِ مُردہ ہو رب سے لو لگاؤ گے نہ جب تک
خدا کا ذکر کرنا اور خدا کی جستجُو پھرنا کرم فرمائے تجھ مسکیں پہ جب ذاتِ خداوندی خدا کے سائے میں رہنا، خدا کے روبرو پھرنا
مری اُفتاد ہے میرا وظیفہ خدا و مصطفیٰ کا ذکر باہم ظفرؔ دِل شاد ہے میرا وظیفہ
جمالِ فیض سے مسحُور رہنا بسا لینا خدا کو قلب و جاں میں سرُور و کیف سے مخمور رہنا
ازل سے تا ابد جاری و ساری وہ بے آب و گیاہ بنجر زمیں کی کرے ابرِ کرم سے آبیاری
منور شش جہت، کون و مکاں ہیں وہ ہر سُو جلوہ فرما ہیں عیاں ہیں کہا کس نے وہ مستُور و نہاں ہیں
خدا کے ہی ملائک، اِنس و جاں ہیں خدا کے نُور سے روشن زماں ہیں خدا کے فیض کے دریا رواں ہیں
اُسی کا حمد گو سارا جہاں ہے مرا جذبِ درُوں سوزِ نہاں ہے ظفرؔ کی روح و جاں، قلبِ تپاں ہے
خدا موجود ہر جا ہر کہیں ہے خدا بندے کی شہ رگ سے قریں تر خدا عشاق کے دل میں مکیں ہے