کیوں ہاتھ میں لوگوں نے اٹھا رکھے ہیں پتھر
آتا ہے چلا جاتا ہے پھر اپنی جگہ پر پیسہ ہے کہ نادار کے گھر رکتا نہیں ہے کیوں ہاتھ میں لوگوں نے اٹھا رکھے ہیں پتھر پک جائے تو پیڑوں پہ ثمر رکتا نہیں ہے
معلیٰ
آتا ہے چلا جاتا ہے پھر اپنی جگہ پر پیسہ ہے کہ نادار کے گھر رکتا نہیں ہے کیوں ہاتھ میں لوگوں نے اٹھا رکھے ہیں پتھر پک جائے تو پیڑوں پہ ثمر رکتا نہیں ہے
حرف پر سوزِ دعا ہو جیسے ہر غزل میں یہی محسوس ہوا میں نے کچھ ان سے کہا ہو جیسے
ہر صبح ہوا آ کر زنجیر ہلا دے گی اس چاند کے پیالے میں ہے زہر بھی امرت بھی تنہائی خدا جانے کیا چیز پلا دے گی
اُلجھ رہی ہے صبا ، راستہ نہیں ملتا حرم ہزار ملے ، بت کدے ہزار ملے زبان سوکھ گئی ، میکدہ نہیں ملتا
یارو ہم نادان نہیں ہیں ، ہم کو کیا سمجھاتے ہو اچھی خاصی ویران ہیں جب اپنے شہر کی گلیاں بھی دیوانو! وحشت کرنے صحرا کی طرف کیا جاتے ہو
اٹھو کہ وقت یہی ہے ستارے توڑنے کا خود اپنے آپ کو پایاب کرتی رہتی ہے عجب جنوں ہے ندی کو کنارے توڑنے کا
مسافر شب سے اٹھتے ہیں ، جو جانا دور ہوتا ہے ہماری زندگانی حشرؔ مٹی کا کھلونا ہے اجل کی ایک ٹھوکر سے جو چکنا چور ہوتا ہے
اے دل میں تجھے ، تو مجھے الزام دئیے جا ڈر ہے کہ کہیں سعی کی طاقت بھی نہ لے لے قسمت کو دعا کوششِ ناکام دئیے جا
خانماں برباد ہو کے رنج و غم دیکھا کیے سر ہوئے تیغِ عداوت سے قلم دیکھا کیے تم نے کیں لاکھوں جفائیں اور ہم دیکھا کیے
تڑپ رہا ہوں ابھی تک میں اس نظر کے لیے علاج کی نہیں حاجت دل و جگر کے لیے بس اک نظر تیری کافی ہے عمر بھر کے لیے