عزم
بکھرے ہوئے اوراقِ خزانی چُن کر لے جاؤں گا ایک ایک نشانی چُن کر چھوڑوں گا نہیں کچھ بھی تری آںکھوں میں کھو جاؤں گا ہر یاد پُرانی چُن کر
معلیٰ
بکھرے ہوئے اوراقِ خزانی چُن کر لے جاؤں گا ایک ایک نشانی چُن کر چھوڑوں گا نہیں کچھ بھی تری آںکھوں میں کھو جاؤں گا ہر یاد پُرانی چُن کر
گو رزق کے چکر نے بہت جور کیا ہم پھرتے رہے ، صبر بہر طور کیا شانوں پہ تری یاد کی چادر لے کر یوں گُھومے کہ ہر شہر کو لاہور کیا
محفل میں جو ہم تُجھ سے پرے بیٹھے ہیں بے بس ہیں سو اشکوں سے بھرے بیٹھے ہیں فی الحال کوئی اور تواضع مت کر ہم لوگ تو پہلے ہی مرے بیٹھے ہیں
ہم جاں سے گئے آس لگائے ، ہائے موجود تھے سب اپنے پرائے ، ہائے خود سوزی کری ہم نے تمہاری خاطر اور تم ہی نہیں دیکھنے آئے ، ہائے
جنوں کے دور کا کیا اعتبار ہے ساقی یہ لال لال سی شے جو بھری ہے مینا میں علاجِ گردشِ لیل و نہار ہے ساقی
آگ میں جنّات ، بستی میں بشر سو جائیں گے موت کے خشقے کو دیکھیں گے جبینِ ماہ پر چادرِ ابرِ رواں سب اوڑھ کر سو جائیں گے
اب تم سے ملاقات نہیں ہو سکتی ہم اور کریں شام و سحر کی بیعت گر کر تو کبھی بات نہیں ہو سکتی
اک دھند کا پھیلا ہے جہاں نظروں میں کس دشتِ بلا سے ہوں گذر کر آیا ہے ریت کا دریا سا رواں نظروں میں
میں موج نہیں ہوں کہ گذر جاؤں گا انسان ہوں آؤ مجھے چھو کر دیکھو میں ریت نہیں ہوں کہ بکھر جاؤں گا
ہر صورت کی تعبیر نہاں ہے اس میں بچے کا ہے ہر بول معانی کا جہاں ہر لذتِ تقریر نہاں ہے اس میں