ظلمت مری کافور ہوئی جاتی ہے
دنیا مری پُرنور ہوئی جاتی ہے جتنے ہوئے جاتے ہیں خیالات بلند منزل بھی مری دُور ہوئی جاتی ہے
معلیٰ
دنیا مری پُرنور ہوئی جاتی ہے جتنے ہوئے جاتے ہیں خیالات بلند منزل بھی مری دُور ہوئی جاتی ہے
عرفاں کا سجا ہے آستانہ دل میں میں دولتِ کونین لیے پھرتا ہوں مخفی ہے محبت کا خزانہ دل میں
خاکی ہوں مگر خاک نہیں ہوں اے دل تاباں ہے مرے سینے میں وہ نور کہ میں گو فرش پہ ہوں عرش نشیں ہوں اے دل
مطلوب وہی کعبۂ مقصود وہی ہے غیر کہاں صنم کدے میں موجود معبود بھی خود وہی ہے مسجود وہی
عابد تجھے معبود سمجھ لیتا ہے حیراں ہوں کہ توحید کا قائل یونکر اپنے کو بھی موجود سمجھ لیتا ہے
ہر سمت نجومِ پُر شرر جلتے ہیں شہبازِ تخیل کی رسائی معلوم اس راہ میں جبریلؑ کے پر جلتے ہیں
کون اس میں مکیں ہے تن کی بستی کیا ہے گو پُر ہو شرابِ پرتگالی سے مگر مینا کو خبر نہیں کہ مستی کیا ہے
دنیا پہ وجود بن کے چھایا ہے خیال تکوینِ جہاں کا راز اتنا ہے فقط اللہ کے دل میں ایک آیا ہے خیال
رنجور کو شافی سے شفا ملتی ہے فانی کی محبت میں فنا ہے اے دلؔ باقی کی محبت میں بقا ملتی ہے
مزمل ، مدثر ، طٰہٰ ، یٰسیں اللہ اللہ دل نشیں ہے کتنا انداز توصیف قرآن مبیں