ہر ایک گل شگفتہ غماز ترا
غنچے کی چٹک میں نغمہ ساز ترا واللیل اذا سجی ادا ہے تیری والصبح اذا تنفس انداز ترا
معلیٰ
غنچے کی چٹک میں نغمہ ساز ترا واللیل اذا سجی ادا ہے تیری والصبح اذا تنفس انداز ترا
تو قلزم بے کنار، میں ایک حباب ہیں تیرے طلوع سے ازل اور ابد ہے میرے غروب سے زمانوں کا حجاب
شعلہ ہوں مگر آنکھوں کو نم رکھتا ہوں دنیا مرے زخموں پہ چھڑکتی ہے نمک مجبور ہوں کاغذ پہ قلم رکھتا ہوں
روشن اخلاق اور روشن انفاس سلطان ادراک، شہ فکر و شعور ہر وصف پیمبر ہے ایماں کی اساس
ہر دور کے سلطان وہی ہیں اے دل سبحان اللہ سب زمانوں پہ محیط پیغمبر حال و ماضی و مستقبل
قدموں کو در نبی پہ ٹھہراتے ہی دل کا سب میل دھل گیا ہے خالد سرکار کی بارگاہ میں آتے ہی
کہ تیرا جلوہ رخِ لالہ زار ہے ساقی سرور و کیف بھی ایسا ہی کچھ عطا کر دے کہ جیسے تشنہ لبی کی پکار ہے ساقی
خوف خدا یہ کام تو میں صبح و مسا کرتا ہوں یا رب میں تری حمد و ثنا کرتا ہوں کچھ خوف نہیں مجھکو کسی کا یارب اے میرے خدا تجھ سے ہی میں ڈرتا ہوں
ذکر الہی جسکو بھی عبادت کا مزہ آتا ہے وہ شوق سے مسجد کی طرف جاتا ہے قرآن میں آیا ہے یہ فرمان خدا دل ذکر الہی سے سکوں پاتا ہے
نشتروں کے دھوکے میں وار بھی ہوئے اکثر منزلوں کی لالچ میں راستے گنوا ڈالے رہبروں کی چاہت میں خوار بھی ہوئے اکثر ہر فریب تازہ کومسکرا کے دیکھا تھا دل کو عہدِ رفتہ کے طور ابھی نہیں بھولے چشم خوش گماں گرچہ تیرگی میں الجھی تھی خواب دیکھنا لیکن ہم کبھی نہیں بھولے چُور […]