دل پہ اُف عاشقی میں کیا گزرا

حادثہ روز اک نیا گزرا

کچھ برا گزرا، کچھ بھلا گزرا

یونہی دنیا کا سلسلہ گزرا

وہ ستم گر، نہ اس میں خوئے ستم

پھر یہ کیوں شک سا بارہا گزرا

پھر ہرے ہو گئے جراحتِ دل

پھر کوئی سانحہ نیا گزرا

ہو کوئی حال اہلِ محفل کا

آج میں حالِ دل سنا گزرا

تاب دل میں مرے کہاں باقی

کیا سنائیں جو ماجرا گزرا

دیں کا دامن چھٹا نظرؔ جب سے

حالِ مسلم ہوا گیا گزرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]