اک حدِ اعتدال پہ لرزاں ہے دیر سے

وہ زندگی کہ مثلِ شرر ناچتی پھری

رہرو تو رقص کرتے ہوئے جان سے گئے

اک عمر گردِ راہ گذر ناچتی پھری

بے خواب تھی جو آنکھ، مگر لگ نہیں سکی

لوری کی دھن پہ گرچہ سحر ناچتی پھری

سیماب ہو کے گھل گئے پاؤں تو دھوپ میں

پائل تھی بے قرار ، مگر ناچتی پھری

ہم خاک زادگان ہی مصروفِ نے نہ تھے

اک بنتِ آسمان ، اُدھر ناچتی پھری

گردش تھمی نہیں تھی کہ پھر داد مل گئی

اور یوں حیات بارِ دگر ناچتی پھری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]