اردوئے معلیٰ

Search

DON QUIXOTTE

ہم اپنی رنگین نظر سے شہر کے منظر دیکھ رہے تھے
آک کی بڑھیاں ہی پریاں تھیں
دھوپ طلسمِ ہوش رباء
شہر کا یہ بے ہنگم شور شرابا ہی موسیقی تھا
تند بگولے دیو کے رتھ ، اور دھول کی اک چادر محمل
رنگ محل اک کٹیا تھی اور گھاس کا اک تنکا جنگل
ایک کنیز رہی ہوگی جو آفاقی کردار ہوئی
اک دلہیز رہی ہوگی جو جادوئی دیوار ہوئی
محلوں کے آرام تیاگے اک نادیدہ خواہش پر
لوگ اگرچہ ہنستے رہتے اس سنجیدہ خواہش پر
دیس بدر ہو جانا ہم کو سیرِ ہفت اقلیم ہوا
ایک مہم جوئی کا سودا دل میں آن مقیم ہوا
لیکن ، وہ آواز جسے ہم کوہِ ندا تعبیر کیے
آخر اک چرواہے کا بے سمت بلاوا ہی ٹھہری
ہم اپنی رنگین نظر سے شہر کے منظر دیکھ رہے تھے
پر ہم کو معلوم نہ تھا
تقدیر کی ایک ہی جادو گرنی روپ بدلتی رہتی ہے
جب نیزے ٹوٹ بھی جائیں تو پن چکی چلتی رہتی ہے
چاہے ہاتھ لگام پہ ہوں اور چاہے پیر رکابوں میں
دکھ اس دنیا میں ملتے ہیں قصے صرف کتابوں میں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ