گل و گلاب، عنادل کی نغمگی تجھ سے

بہارِ تازہ کے پہلو میں زندگی تجھ سے

جہانِ حسن کو ملتی ہے تیرے اسم سے خیر

وجودِ عشق نے پائی ہے تازگی تجھ سے

عروسِ شب کے سرہانے ترے کرم کا غلاف

نگارِ صبح کے دامن میں روشنی تجھ سے

مجال شاہوں کی، اُس سے کریں شہی کی بات

ترے فقیر کو حاصل ہے خواجگی تجھ سے

حوالے تیرے ہوں تجھ سے رکھوں گا ربطِ نیاز

مَیں بندہ تیرا ہوں سیکھوں گا بندگی تجھ سے

نئے زمانوں کو چاہت ہے اور حاجت ہے

مرے کریم کہ سیکھیں وہ سادگی تجھ سے

غلام زادہ ہوں، زیبِ گلو رہے مقصودؔ

وہ طوق، جس کو ملی شانِ سروری تجھ سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]