جائے تسکین ہے اور شہرِ کرم ہے، پھر بھی

جائے تسکین ہے اور شہرِ کرم ہے ، پھر بھی

خلد ، صحرائے مدینہ سے تو کم ہے ، پھر بھی

گو گرفتارِ معاصی ہے سرشتِ نادم

ظلِ الطاف تو ہر وقت بہم ہے ، پھر بھی

عشق پڑھ پڑھ کے ترے چہرۂ دلکش کا نصاب

حسن بڑھ بڑھ کے تری زلف کا خَم ہے ، پھر بھی

خود بخود شعر میں ڈھل سکتی ہیں سطریں ، لیکن

نعت کا حرف تو اِک اِذنِ کرم ہے ، پھر بھی

طائرِ سدرہ کے پَر جلتے ہیں جِس سے آگے

اُس سے آگے ہی ترا نقشِ قدم ہے ، پھر بھی

خاورِ دل میں تو پھیلے ہیں تری یاد کے رنگ

اُ فقِ دید پہ اِک خواب رقم ہے ، پھر بھی

ساعتِ وصلِ مسلسل میں ہوں مقصودؔ ، مگر

ثروتِ شوق کو کیوں ہجر کا غم ہے ، پھر بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]