خودی کو آ گئی ہنسی امید کے سوال پر

اندھیرے تلملا اٹھے چراغ کی مجال پر

یہ چاہتوں کا درد ہے یہ قربتوں کا حشر ہے

جو دھوپ چھپ کے روئی آفتاب کے زوال پر

یہ جان کر کہ چاند میرے گھر میں جگمگائے گا

ستارے آج شام سے ہی آ گئے کمال پر

نظر میں زندگی کی پھول معتبر نہ ہو سکے

خزاں کو اعتراض تھا بہار سے وصال پر

خبر یہ دیر سے اڑی کہ موت سے مفر نہیں

پرند جب اتر چکے شکاریوں کے جال پر

زمانہ جس کی زندگی میں قدر کچھ نہ کر سکا

اب آسمان رو رہا ہے اس کے انتقال پر

کہاں وہ میناؔ چاہتوں کی شدتوں کا سلسلہ

کہاں یہ بے نیازیاں ہمارے عرض حال پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]