ساقی کا اگر مجھ پر فیضانِ نظر ہوتا

بادہ بھی دگر ہوتا، نشّہ بھی دگر ہوتا

منزل سے بھٹکنے کا تجھ کو نہ خطر ہوتا

نقشِ کفِ پا ان کا گر پیشِ نظر ہوتا

اس عالمِ گزراں کا عالم ہی دگر ہوتا

کہتے ہیں بشر جس کو، اے کاش بشر ہوتا

تو اپنے گناہوں پر نادم ہی نہیں ورنہ

یا دیدۂ تر ہوتا، یا دامنِ تر ہوتا

دم گھٹنے لگا میرا، اے میرے خدا اب تو

یہ تیرہ شبی جاتی، ہنگامِ سحر ہوتا

غم کی زدِ پیہم سے بچتا میں نظرؔ کیسے

دل یہ نہ مرا بڑھ کر گر سینہ سپر ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]