شبِ دیجور کو دے خوابِ کرم کا جلوہ

آنکھ کے طاق میں رکھ نقشِ قدم کا جلوہ

زیست کے جادۂ بے سمت کی راہیں ُکھل جائیں

مجھ کو مِل جائے جو اُس زلف کے خم کا جلوہ

مَیں بھی ہوں تیرے گداؤں کے گداؤں کا گدا

میرے کشکول کو دے اپنی نِعَم کا جلوہ

اُن کی مرضی پہ ہے موقوف جہانِ رحمت

جس پہ چاہیں وہ کریں جاہ و حشم کا جلوہ

مجھ کو اک حرف عطا ہو تری مدحت کے لیے

میرے اِک حرف میں رکھ دیدۂ نم کا جلوہ

بس یہی عرض ہے مقصودؔ کی اے قاسمِ ُکل

نعت ہو لب پہ تری آخری دَم کا جلوہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]