اُبھر رہی ہے پسِ حرف روشنی کی نوید

کہ تیری نعت ہے سرکار زندگی کی نوید

اُداس لمحوں میں رہتی ہے ساتھ ساتھ مرے

ہے بے کلی میں تری یاد اِک خوشی کی نوید

حدیثِ قولی ہو، فعلی ہو یا کہ تقریری

زمانہ ان سے ہی لیتا ہے آگہی کی نوید

نثار شان و شرف پر ترے کہ جن کے سبب

غلام جسم نے پائی تھی خواجگی کی نوید

حضور آپ نے بانٹے ہیں عزتوں کے چراغ

حضور آپ نے بخشی ہے خود گری کی نوید

ابھی ابھی کوئی جھونکا ہَوا کا آیا تھا

ابھی ابھی کوئی آئی ہے اُس گلی کی نوید

سوادِ عرصۂ وحشت میں ہوں، مگر مقصودؔ

ہر ایک لمحۂ مدحت ہے دل لگی کی نوید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]