یہ ظرف ہے عذاب مرے واسطے کہ میں

کم بخت اپنے حال پہ رو بھی نہیں سکوں

ائے راہگزارِ شوق یہ کیسا مقام ہے

کھونا پڑا ہے وہ جسے کھو بھی نہیں سکوں

میری انا کےچاند سے اجلے وجود پر

وہ داغ لگ چکا ہے کہ دھو بھی نہیں سکوں

تعبیر جاننے کا نتیجہ ہے یہ کہ اب

خوابوں کا خوف وہ ہے کہ سو بھی نہیں سکوں

لگتا ہے ہر مقام پہ جیسے کہ تو گیا

اور میں کہ ہر مقام پہ ہو بھی نہیں سکوں

دامانِ چاک چاک ہے میرا یہ میری جاں

کچھ خط نہیں ترا کہ بھگو بھی نہیں سکوں

تو نے دیا جو درد تو دل کھول کے دیا

میں جس کو بازوؤں میں سمو بھی نہیں سکوں

اس چشمِ خواب ناک میں گہرائیاں تو ہوں

لٹیا نہیں ہے دل کہ ڈبو بھی نہیں سکوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]