آؤ ہم پیرویِ سیرتِ سرور کر لیں
قطرۂِ عشق کو اس طرح سمندر کر لیں
ظلمتِ دہر سے اپنی بھی رہائی ہو گی
وردِ جاں ہم بھی اگر اسمِ پیمبر کر لیں
دل مہکتا رہے آقا کی ثنا خوانی سے
ذہن کے چاروں طرف سایہِ دلبر کر لیں
روح شاداب نہیں گر تو پریشاں کیوں ہو
ذکرِ سرکاـرِ دو عالم سے معطر کر لیں
کبھی تبلیغ کو تاثیر نہیں مل سکتی
دل سے تعظیمِ نبی گر نہ سخنور کر لیں
خاکِ در چوم کے آنکھوں پہ لگا کر ہم بھی
اپنی تاریک خیالی کو منور کر لیں
حکمِ سرکار پہ خم اپنی انائیں کر کے
عشق کو دامنِ تسلیم کے اندر کر لیں
’’درِ سرکار ہے منزل‘‘ یہ سدا کہہ کے شکیلؔ
اپنے بچوں کو بھی اِس لطف کا خو گر کر لیں