اردوئے معلیٰ

آتا نہیں ہے سوچ کے اب تو یقیں کبھی

عریاں بھی ہو چکا ہے وہ خلوت نشیں کبھی

 

ہم نے بھی حالِ دل پہ قناعت قبول کی

اس نے بھی دل کو لَوٹ کے پوچھا نہیں کبھی

 

گرنے لگا ہے روز ہی ہاتھوں سے کچھ نہ کچھ

نایاب آسمان تو غائب زمیں کبھی

 

ابھرے ہیں نقشِ پاء میں کبھی ہونٹ بن کے ہم

متی میں جذب ہو گئے ہو کر جبیں کبھی

 

پہنچے ہو تم محال سے ناممکنات تک

دل پھر بھی ڈھونڈتا ہے کہ شاید، کہیں ، کبھی

 

اب کون مانتا ہے کہ خانہ بدوش ہم

اس کے مکانِ دل کو رہے تھے مکیں کبھی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ