آج پروازِ تخیل سوئے آں دلدار ہے
بزمِ ہست و بود میں فطرت کا جو شہکار ہے
وہ ہے ختم المرسلیں دنیا کا وہ سردار ہے
زیرِ گردوں اس کی ہی سب سے بڑی سرکار ہے
نرم خو ہے، خوبرو ہے، صاحبِ کردار ہے
مردِ عالی حوصلہ ہے اور بلند افکار ہے
دشمنوں سے راہِ حق میں برسرِ پیکار ہے
رعب ہیبت وہ برائے لشکرِ کفار ہے
روز و شب اللہ کی وحدانیت کا درس و وعظ
سیلِ کفر و شرک کو وہ آہنی دیوار ہے
وہ معلم، وہ مفسر، وہ مقنن، وہ فقیہ
سر پہ اس کی علم و حکمت کی بڑی دستار ہے
اس کے بتلائے ہوئے رستوں پہ چلنا ناگزیر
ورنہ صحنِ گلشنِ دنیا بہت پُر خار ہے
نقشِ پائے مصطفیٰ کی پیروی کرتا رہے
جس کسی کو بھی نجاتِ اخروی درکار ہے
جلوہ گاہِ ناز اسی کی ہے جہاں پر اے نظرؔ
روز و شب اللہ اکبر بارشِ انوار ہے