آخری وقت تھا
رات خاموش تھی
میری آہ و فغاں سنتے سنتے یہ شب
تھک گئی اور تھک ہار کر سو گئی
ایک میں
جیسے تصویرِ سوز و الم
باعثِ ہجر بیٹھا لیے چشمِ نم
اپنے دل پر رکھے عکسِ نعلِ کرم
مضطرب قلب کو چین دیتا رہا
پھر کہیں دور سے
ایک آواز نے
اک نئی تازگی اک نئی روشنی
ڈال دی یک بیک جسمِ بے جان میں
وہ مؤذن کی آواز تھی اور وہ
دے رہا تھا گواہی ترے نور کی
نام بارِ دگر جب محمد سنا
بے کلی چھٹ گئی قلبِ رنجور کی
یوں لگا جیسے کوئی مرے ساتھ ہے
روح پرور تھا احساس اس ساتھ کا
خوشبوئیں، روشنی میرے چاروں طرف
یوں لگا جیسے تجسیم ہونے لگیں
ڈوبتا چاند بھی رک گیا اس گھڑی
ٹمٹماہٹ ستاروں کی رک سی گئی
دل کے یثرب میں جیسے بہار آگئی
دھڑکنیں جیسے تھیں تال دف کی کوئی
اس کی لے پر زباں سے یہ جاری ہوا
یا شفیع الورٰی سلامٌ علیک
خاتم الانبیاء سلامٌ علیک