آرزوئے دید میں آخر اثر اتنا تو ہو
وادیٔ بطحا میں جا پہنچے بشر ، اتنا تو ہو
سرنِگوں ہوں اُن کے آگے کج کلاہانِ جہاں
شاہ دیں کے خادموں کا کرّوفر اتنا تو ہو
ذکرِ آقا میں خیال آئے جُونہی اعمال کا
آستیں اشکِ ندامت سے ہو تر ، اتنا تو ہو
نزع کی حالت میں میرے لب پہ ہو نامِ حضور
مجھ سے خاطی کی دُعا میں بھی اثر اتنا تو ہو
زندگی رستے میں گر گزرے تو گزرے شوق سے
روضۂ اطہر ہو مقصُودِ سفر ، اتنا تو ہو
ہے یہی میری تمنّا، ہے یہی دل کی مُراد
سرورِ کونین کا مِل جائے در ، اتنا تو ہو
آپ کے در پر پہنچنے کی سعادت ہو نصیب
ہم کو ہونا پڑ نہ جائے دربدر ، اتنا تو ہو
اور تو فردِ عمل کی بات کیا ، جو ہے سو ہے
دیکھ لیں گے سرورِ کونین ، ڈر اتنا تو ہو
کیجیے اُن کے غلاموں کی غلامی اختیار
اور تو محمود کیا کرنا ہے، پر اتنا تو ہو