آسماں ہی سے مگر خون بہایا نہ گیا
ورنہ محبوب کو کس روز ستایا نہ گیا
بارہا میرے قدم راہِ وفا سے بھٹکے
پھر بھی سر سے میرے سرکار کا سایا نہ گیا
زندگی کیسے اندھیروں سے نکل پائے گی
دیپ گر عشقِ محمد کا جلایا نہ گیا
عین ممکن ہے کہ مر جائے گا یہ فرقت میں
اس بھکاری کو مدینے جو بلایا نہ گیا
لوحِ احساس پہ روشن ستارہ بن کر
منظرِ عشق نگر دل سے مٹایا نہ گیا
بھول بیٹھا جو درود آپ پہ پڑھنا آقا
اس کے تاریک مقدر کو جگایا نہ گیا
بنتِ زہراؑ تیرے خطبوں نے عجب کام کیا
قتلِ شبیرؑ یزیدوں سے چھپایا نہ گیا
عمر بھر نعت کی آیات جمع کرتا ریا
مجھ نکمے سے تو کچھ کمایا نہ گیا
لوٹ آیا ہے مدینے سے بدن تو مظہر
پر مری روح سے واپس کبھی آیا نہ گیا