آقائے دوجہاں کی لب پر جو گفتگو ہے
ہے جان و دل معطر ہر سانس مشکبو ہے
بلبل میں خوش نوائی پھولوں میں رنگ و بو ہے
رونق تمہارے دم سے در بزمِ کاخ و کو ہے
حسن و جمال قرباں جس پر ہوئے وہ تو ہے
محفل میں خوبروؤں کی سب سے خوبرو ہے
یک شمۂ تصنع اس میں نہ کچھ غلو ہے
خلقِ رسولِ اکرم قرآن ہو بہ ہو ہے
پیاسے کنویں پہ جائیں دستور یہ ہے لیکن
اس بحرِ بیکراں کو پیاسوں کی جستجو ہے
پہنچا ہے لامکاں میں اسرا کی شب ہے شاید
اس جلوہ گاہِ رب کا آگاہِ راز تو ہے
لبریز جامِ دل کر از بادۂ حقیقت
اے ساقی زمانہ تو مالکِ سبو ہے
آ جائیں چاک داماں آ جائیں سینہ چاکاں
بر آستانِ آقا ہر صنعتِ رفو ہے
احوال سنتے آئے روضہ کا تیرے شاہا
اپنی نظرؔ سے دیکھیں اب تو یہ آرزو ہے