تارِ شب سے زماں کوخلاصی ملی
اور بہاروں پہ پھر سے بہار آگئی
جوق در جوق قدسی
سرِ فرش تب
سبز پرچم اُٹھائے اُترنے لگے
ڈالی ڈالی پہ غنچے مہکنے لگے
اور فرشِ جہاں
یوں لگا
جیسے خوشبو سے بھر سا گیا
اور بہاروں پہ پھر سے بہار آگئی
اُن کے قدموں کا دھوون تھا حسنِ جناں
نظمِ عالم ہوا
اُن کے دم سے رواں
سر بہ خم چاند تھا
اُن کی دہلیز پر
ماہتاب و ستارے نگوں سار تھے
حسنِ کل کی جھلک کے طلبگار تھے
حسن کے عطر کے
سب حوالے رسولِ خدا کے حضور
جذب و مستی میں خوشیوں سے سرشار تھے
رنگ کی نور کی ایک برسات تھی
جس سے بصرٰی کی بستی بھی روشن ہوئی
لگ رہا تھا یوں جیسے کہ بادِ صبا
کہہ رہی ہو گلابوں کے کانوں میں کچھ
دشتِ بطحا میں عبد المطلب کے گھر
آمنہ، ابنِ شیبہ کے نورِ نظر
نور والے محمد کی آمد ہوئی
نور ہی نور تھا
چار سو نور تھا
تابہ حدِّ نگہ
نور ہی نور تھا
ضبطِ تحریر سے ہے وہ منظر ورا
کس قدر تھا حسیں
چہرۂ والضحٰی