اردوئے معلیٰ

آنس معین ، آنے والی صد ی کا توانا شاعر
یہ میری کم نصیبی ہے کہ مجھے آنس معین سے بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل نہ ہو سکا ۔ وہ اتنی جلدی سب سے روٹھ کر چلا جائے گا ۔ایسا کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ اس کی پہلی غزل ہی اس کی شناخت بن کر میرے سامنے آئی ۔
———-
وہ میرے حال پہ رویا بھی، مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے ،پرایا بھی
———-
اس کی یہ غزل پڑھ کر مجھے شدت سے احساس ہوا تھا کہ عصری حسیت کے اس نوجوان شاعر نے اپنی شمع ِ فکر اپنے خونِ جگر سے روشن کر رکھی ہے اور اپنی ذات کے کرب کولفظوں میں ڈھال کر اپنے نو ک ِقلم سے اسے سطح ِ قر طا س پر بکھیر تا ہے ۔مجھے اس کی طبیعت میں حزن، ما یو سی ۔محر ومی ۔ما ند گی اور عد م تحفظ کے احسا س کے سا ئے بہت گہر ے لگے ۔ اس کی بعد کی تخلیقا ت نے بھی جو میری نظر سے گذریں ،میرے اس یقین پر صا د کیا کہ آنس معین زمین۔ذات اورکا ئنات کا شا عر ہے اور اس نے اس تثلیت کو اپنے جسم و جا ن میں پو ری طر ح جذب کر کے اور جزو ِ بد ن بنا کر فکر ی سطح پر ابھا را ہے ۔
———-
ہے میرے اند ر بسی ہو ئی ایک اور دنیا
مگرکبھی تم نے اتنا لمبا سفر کیا ہے؟
———-
کچھ آندھیا ں بھی اپنی معا و ن سفر میں تھیں
تھک کرپڑاؤ ڈا لا تو خیمے اکھڑ گئے
———-
مجھے آنس معین کے اند ر ایک ایسا جوالا مکھی سلگتا ہوا دکھائی دےرہا ہے۔ جس میں روشنی بھی ہے اور تپش بھی۔ا سکے فکر ی رویوں میں ایک طر ف اگر جذبو ں کی بر قِ خا طف ہے تو دوسر ی طر ف خوف وخدشا ت کی اند ھی اور تا ریک غاریں ہیں ، جن میں جھا نکنے سے ڈر لگتا ہے ۔ وہ اپنی ذات کے اندر بہت گہرا اتر گیا ۔لگتا ہے جہا ں سے چاروں طرف ویر انوں کے منظر دکھا ئی دیتے ہیں اور با ہر کھلنے والی کھڑکی بند نظر آتی ہے ۔
———-
اند ر کی دنیا سے ربط بڑھاؤ آنس
با ہر کھلنے والی کھڑ کی بند پڑ ی ہے
———-
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر ” آنس معین ” کا یوم ولادت
———-
شا ید اسی لئے اس کی شا عر ی میں مہیب گنبدوں کی صدا ئے بازگشت سنا ئی دیتی ہے اور ہمارے با طن کے نہا ں خا نو ں میں اتر جا تی ہے
———-
گو نجتا ہے بد ن میں سنا ٹا
کو ئی خا لی مکا ن ہو جیسے
———-
آنس کی شا عر ی میں جہا ں ذات کی پر اسر اریت کا عر فا ن ہے، وہاں دل گر فتگی کی بھی بھر پو ر عکا سی ہے اور ذاتی زند گی میں پا یا جا نے والا انجا نا خو ف بھی اس کی شا عر ی پر چھا یا ہوا لگتا ہے ۔ اپنے غموں،محر ومیوں، بے چا رگیوں ۔اداسیو ں اور تنہا ئیو ں کو غزل کا مو ثر لہجہ عطا کر کے اس نے اولین مراحل میں ہی اہل ِادب کو اپنی طر ف متو جہ کر لیا تھا ۔ وہ اپنی عمر سے کہیں زیا دہ عمر رسید ہ ۔ تجر بے سے کہیں زیا دہ تجر بہ کا راور قد وقا مت والا نظر آتا ہے ۔وہ آنے والی صد ی کا شا عر ہے، جو شعر و سخن میں نیا ر نگ و آہنگ لے کر آیا اور پا ئید ار نقش چھوڑ گیا ۔
آنس معین کے کلا م سے یہ بھی ظا ہر ہو تا ہے کہ اس نے اند ر کی دنیا میں اتر جا نے کے با وجو د با ہر کی دنیا کوبھی بغو ردیکھا ہے اور مختلف خا رجی عوامل کو شعر ی تو انا ئی کے طو ر پر بر تا ہے ۔
———-
سب لو گ سوالی ہیں ،سبھی جسم بر ہنہ
اور پا س ہے بس ایک رِدا دیں تو کسے دیں؟
———-
سچ کہنے کا حو صلہ تم نے چھین لیا ہے ورنہ
شہر میں پھیلی ویر انی کو سب ویرا نی کہتے
———-
سو چ رہے ہو سو چو لیکن بو ل نہ پڑ نا
دیکھ رہے ہو شہر میں کیسا سنا ٹا ہے؟
———-
آنس کی شا عر ی میں عر فا نِ ذات کی جلو ہ گر ی تو ملتی ہے مگر وہ اند ر اور با ہر کے تضا دات کی زد میں آیا ہوا بھی لگتا ہے اور اپنی مدا فعت کے لئے کو شاں بھی نظر آتا ہے ۔
———-
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر ” آنس معین ” کا یوم وفات
———-
کبھی میں سو رج کو دوں صدا تیر گی کے ڈر سے
کبھی یہ سو چوں کہ بر ف کا ہے مکا ن اپنا
———-
آنس کا شعر ی سفر دراصل تلا ش و جستجو کا سفر ہے ۔ کبھی نہ ختم ہونے والا لمبا سفر ۔
———-
بیا ض بھر بھی گئی اور پھر بھی سا دہ ہے
تمہا رے نا م کو لکھا بھی اور مٹا یا بھی
———-
بھر ی ہو ئی بیا ض کا سا دہ لگنا آنس معین کی جستجو ئے مسلسل کا غما ز ہے۔ وہ جتنا آگے بڑھا ہے اسے اتنا ہی وسعتوں کی لا متناہیت کا احسا س ہوا ہے۔ وہ خو د اپنی ذات میں بھی ایک بحر ِ بےکراں تھا۔ اند ر سے پر سکون ۔ شا نت اور با ہر سے متلاطم ۔یہ شعر آنس کی اس شنا خت کا مظہر ہے۔
———-
حیر ت سے جو یوں میری طر ف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمند ر نہیں دیکھا ؟
———-
آنس معی ن کا بیشتر کلا م ان کی ذات کا الم نا مہ ہے ۔جس کا کر ب قاری کے دل میں منتقل ہو جا تا ہے اور اسے بھی مسلسل کر ب میں مبتلا کردیتا ہے ۔ اس کی شا عری میں شگفتگی ‘یاسیت اور اضمحلا ل کی تہیں جمی نظر آتی ہیں ۔ غم اس کے رگ و پے میں اترا ہو ا لگتا ہے ۔ اس نے زند گی کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے اور جب کرب ناقا بلِ بر داشت ہو گیا تو اس نے اس کرب کومجسم کر کے اشعا ر میں ڈھال دیا ہے ۔
———-
عجب اند از سے یہ گھر گر ا ہے
مِرا ملبہ مِرے اوپر گر ا ہے
———-
اس کے بعض اشعا ر میں ف شتہ ءاجل کے قدموں کی چا پ سنائی دیتی ہے ۔
———-
انجا م کو پہنچوں گا میں انجا م سے پہلے
خود میری کہا نی بھی سنا ئے گا کو ئی اور
———-
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر ” آنس معین ” کا یوم وفات
———-
رہتا ہو ں جس زمیں پہ وہی اوڑھ لو ں گا میں
جا ئے اما ں اک اور بھی ہو تی ہے گھر کے بعد
———-
وسعتِ دریا میں گم ہو جاؤں گا
ایک بچے کی طر ح سو جاؤں گا
———-
مند رجہ با لا اشعا ر سے صاف ظا ہرہو تا ہے کہ اسے دروازے پر موت کی دستک سنا ئی دے رہی تھی ۔ اس نے اسے زیادہ انتظار کی زحمت نہیں دی اور خود ہی دروازہ کھول دیا ۔
———-
آنس معین — آنے والی صد ی کا توانا شاعر
تحریر: ہیرا نند سو ز ، بھارت
ہاؤس نمبر:۔ 7 A/271 .فریدآباد ، ۔121006۔ ہریانہ بھارت
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات