آپ آتے تو نیا کھیل دکھایا جاتا
دل کے شیشے کو بلندی سے گرایا جاتا
ہم تو راضی بہ رضا لوگ تھے فانی جو ہوئے
وقت کب تھا کہ کسی ضد پہ لٹایا جاتا
ہم کہ بے خوف بیابانِ جہاں سے گزرے
تو میسر کبھی ہوتا تو گنوایا جاتا
دل کی تزئین کو باقی ہے فقط رنگ ترا
اور یہ رنگ کہیں بھی نہیں پایا جاتا
لوٹ سکتی کسی ترکیب سے کوری مٹی
چاک کے پاٹ کو اُلٹا بھی گھمایا جاتا
مل گیا شہر کو کچھ اور تماشہ ورنہ
آبلہ پاء کو ابھی اور نچایا جاتا
ہم ٹھہرتے تو ترے حسن کا سورج کھوتے
اور بڑھتے تو تری زلف کا سایہ جاتا
تم نے کشکولِ خموشی میں صدائیں ڈالیں
ہم فقیروں سے کہاں تم کو بلایا جاتا
دل پہ طاری تھی زمانوں کی کہولت ورنہ
قافیہ اور بھی ندرت سے نبھایا جاتا
اضطراری یہی سوجھی ہے نہیں تو ناصر
زخم شعلہ تھا کہ پھونکوں سے بجھایا جاتا؟