ائے کم نصیب زعمِ محبت ، ہلاک ہو
خود بھی شکست یاب یوا ، مجھ کو بھی کیا
ائے کہ اجل رسید وفا کے یقین ، جا
تو خآنماں خراب ہوا ، مجھ کو بھی کیا
تجھ کو کہا نہ تھا کہ بڑے بول، بول مت
اب خود بھی لاجواب یوا ، مجھ کو بھی کیا
وہ جو غرور تھا مری پہچان تھا وہی
ایسا گیا کہ خواب یوا ، مجھ کو بھی کیا
عریاں مری وفا کا تقدس ہوا کہ تو
جس وقت بے حجاب یوا ، مجھ کو بھی کیا
خوابوں کو پیاس مار گئی ، عشق کے بھرم
تو تو چلو سراب یوا ، مجھ کو بھی کیا
رکھا تھا مشکلوں سے بھرم دل کا ، پر کوئی
جس وقت بے نقاب یوا ، مجھ کو بھی کیا