(ا)
اترا ہے اوجِ نُور سے یوں مصحفِ ثنا
میری حرائے روح میں اک جگمگا ہوا
(ب)
بسمِ نبی جو میں ہوا اذنِ ثنا طلب
بے مائیگی کو مل گیا رزقِ ثنا عجب
(پ)
پاتے ہیں زائریں ترے آداب اپنے آپ
آئیں بپائے چشم کہ آہٹ نہ کوئی چاپ
(ت)
تنویر زندگی کی ہے آقا تری حیات
تدبیر زندگی کی بھی آقا تری ہی بات
(ٹ)
ٹھوکر پہ اس کی رکّھے ہیں قصرِ شہی کے ٹھاٹ
ریشم سے بھی سوا ہوئے تیرے گدا کے ٹاٹ
(ث)
ثانی نہیں ہے آپ کا اے فخرِ نوح و شیث
قرآن بھی گواہ ہے اور آپ کی حدیث
(ج)
جملہ رُسُل کا اپنے زمانے تلک تھا راج
ختمِ رُسُل کا آپ کے سر تا ابد ہے تاج
(چ)
چلتا رہے گا ہر زماں تیرا پیام سچ
چھا کر رہے گا ہر مکاں تیرا پیام سچ
(ح)
حُسنِ بیاں عطا ہو جو حسّان کی طرح
چوموں میں نام آپ کا قرآن کی طرح
(خ)
خوش ہوں کہ مکّہ پاک بھی دل تھا مدینہ رُخ
مولا مروں جہاں بھی ہو چہرہ مدینہ رُخ
(د)
دھڑکن میں ہو درود تو لب پر بھی ہو درود
جاری ہو سانس میں بھی دمِ واپسیں درود
(ڈ)
ڈالا قریش نے تھا دماغوں میں جو گھمنڈ
توڑا حضور نے تھا محبت سے وہ گھمنڈ
(ذ)
ذکر ان کا طاب طاب ہے فکر ان کی ماذ ماذ
ان کا ہی شہرِ امن ہے دارالاماں ملاذ
(ر)
رحمت نواز آقا وہ روحوں کا ہیں قرار
رحمت ہیں عالمیں کی وہ محبوبِ کردگار
(ز)
زندہ ہے تیرے خُلق سے ہی زندگی کا راز
تیرے نقوشِ راہ میں ہے زندگی کا راز
(س)
سب خَلق کو ہے آپ کے امر و ادب کا پاس
خالق کو بھی ہے آپ کے حُسنِ طلب کا پاس
(ش)
شوق و نیاز و عجز کی ایسی ملے روش
عشقِ نبی سے بچوں کی کر لوں میں پرورش
(ص)
صبر و رضا ہے آپ کی عترت کا وصفِ خاص
نسلوں سے راہِ حق ہی رہا ان کا اختصاص
(ض)
ضو بار ان کے ذکر سے ہر دم رہے بیاض
مہکے ہوں مدحتوں سے سدا فکر کے ریاض
(ط)
طرزِ حسین آپ کے قرآں کا ہے صراط
سنّت کی پیروی میں ہے روحوں کا انبساط
(ظ)
ظاہر شبِ ظلام میں انسانیت کا حفظ
آقا ترے پیام میں انسانیت کا حفظ
(ع)
عالم میں آپ آئے تو مہکی عجب ربیع
حُسن و جمال ِ خیر کے گلشن ہوئے وسیع
(غ)
غربت میں منزلوں کا وہ پاتے رہے سراغ
تیرے نقوشِ راہ تھے جن کے لیے چراغ
(ف)
فصحا عرب عجم کے کریں در کا یوں طواف
ذکرِ جمیل آپ کا حرفوں کا ہے مطاف
(ق)
قرطاسِ دل پہ لکھتا ہوں مدحت ورق ورق
رہتی ہے میری روح میں روشن شفق شفق
(ک)
کُل کائنات میں ہے جو آقا تری مہک
روحوں میں بس رہی ہے وہ آقا تری مہک
(گ)
گنبد ترا ہو سامنے یوں جگمگائیں بھاگ
جب جسم سے ہو جاں رواں تو خیر پائیں بھاگ
(ل)
لکھتا ہوں جب درود میں ہو کر خجل خجل
نادم قلم بھی چلتا ہے رُک رُک سنبھل سنبھل
(م)
میرے کریم آپ کی عترت کا ہے مقام
صبح و مسا درود ہو صبح و مسا سلام
(ن)
نُورِ نبی سے صبحِ درخشانِ کاف و نون
وہ راہ ہست و بود ہے اسرارِ بے چگون
(و)
وائے کہ رزقِ خاک ہے اُمّت کی آبرو
آقا عطا ہو پھر ہمیں رفعت کی جستجو
(ہ)
ہم پر بھی اب کریم ہو رحمت کی اک نگاہ
ملتی نہیں جہان میں ہم کو کہیں پناہ
(ی)
یہ جو مرے حروف کو ہے روشنی ملی
یادِ رُخِ حبیب کی ہے چاندنی سبھی
(ے)
یا رب ظفر کے ہاتھ میں کلکِ ثنا رہے
مدح و ثنائے شاہ کا در اس پہ وا رہے
جس میں منفرد بات یہ عطا ہوئی ہے کہ ہر شعر جس حرف سے
شروع ہو رہا ہے اسی حرف پہ اس کا اختتام بھی ہے-