اترے ہے دل پہ عشق سا پیغام صبح و شام
سمجھاؤں جی کو خود کو کروں رام صبح و شام
ذکرِ نبی کی بات الگ ہے، کیا کرو
محسوس ہو گا خود بخود آرام صبح و شام
زخموں سے چُور چُور ہوں لِلّلہ اک نگاہ
سہتا رہوں گا کب تلک آلام صبح و شام
پنجتن کا پاک اسم ضمانت سکوں کی ہے
لب پر سجا کے رکھتا ہوں میں نام صبح و شام
نعتِ نبی کو روز کے معمول میں رکھو
پایا کرو گے نِت نئے انعام صبح و شام
آلِ نبی سے بغض جو رکھتے ہیں کج مزاج
رہتے ہیں زندگی میں وہ ناکام صبح و شام
حسرت جو نعت گوئی میں ہو مصلحت شکار
فن اس کا ہو گا پھر یونہی نیلام صبح و شام