اردوئے معلیٰ

اسی لئے تو فروزاں ہے یہ حیات کی ضو

کہ ضو نواز ہے ہر سُو تمھاری نعت کی ضو

 

تمھارا نُور تو چمکا ہے نورِ حق سے، مگر

تمھارے نُور سے پھُوٹی ہے ممکنات کی ضو

 

بھٹک ہی جائے نہ صبحِ جمالِ عصرِ رواں

سو اُس کو تھامے ہُوئے ہے تمھاری رات کی ضو

 

تمھارے اِسم سے قائم ہے نظمِ کون و مکاں

تمھاری یاد سے روشن ہے کائنات کی ضو

 

عجیب کربِ تغیر میں تھا ہر اِک منظر

تمھارے آنے سے ممکن ہُوئی ثبات کی ضو

 

سو اس کے بعد ہی آئی کوئی نویدِ کرم

بدن نے اوڑھ لی جب آپ کی صفات کی ضو

 

طلسمِ عجز کے محور میں تھا سخن گرداں

کہ حرف و صوت میں چمکی تمھاری بات کی ضو

 

دمِ مسیحا نے پایا تمھارے قُرب کا لمس

یدِ کلیم نے تھامی تمھارے ہات کی ضو

 

بُلاوا آیا ہے شہرِ کرم سے پھر مقصود

مرے نصیب میں چمکی ہے التفات کی ضو

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔