اس قدر رنگ چھپائے تو نہیں جا سکتے
ہم پسِ مرگ بھلائے تو نہیں جا سکتے
تم ہو سورج تو ذرا آؤ سوا نیزے پر
صرف اک دھوپ سے سائے تو نہیں جا سکتے
کچھ مقدر کی عنایات ہیں لازم ورنہ
اس قدر درد کمائے تو نہیں جا سکتے
کس کو معلوم کہ اس شخص پہ کیا بیت گئی
بے سبب پھول جلائے تو نہیں جا سکتے
تو بھی کچھ بامِ طلسمات کو اونچا کر لے
ہاتھ ہر روز کٹائے تو نہیں جا سکتے
دشتِ معدوم کے باسی ہیں ، بلانے والو
شہرِ امکان میں پائے تو نہیں جا سکتے
ضبط کی اور حقیقت ہے مگر چارہ گرو
زخم ہاتھوں سے مٹائے تو نہیں جا سکتے