اشکِ کم ظرف مرا ضبط ڈبو کر نکلا
میں جسے قطرہ سمجھتا تھا سمندر نکلا
جذبۂ شوقِ نظارہ بھی مری آنکھ میں تھا
حسنِ نظارہ بھی اس آنکھ کے اندر نکلا
بارہا دستِ مسیحا سے بھی کھائے ہیں فریب
ہم نے نشتر جسے سمجھا وہی خنجر نکلا
ہم سمجھتے تھے کہ سادہ ہے محبت کی کتاب
حاشیہ اس میں مگر متن سے بڑھ کر نکلا
مرحلہ جب کوئی ایثار کا آیا سرِ بزم
قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا
ایسا آسیب ہے گلیوں میں سنا ہے کہ ظہیرؔ
گھر پلٹ کر نہیں آتا کہ جو باہر نکلا