البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے

لمحات کے پیکر میں زمانے نکل آئے

بھولے ہوئے کچھ نامے، بھلائے ہوئے کچھ نام

کاغذ کے پلندوں سے خزانے نکل آئے

تھے گوشہ نشیں آنکھ میں آنسو مرے کب سے

عید آئی تو تہوار منانے نکل آئے

حیرت سے سنا کرتے تھے غیروں کے سمجھ کر

خود اپنے ہی لوگوں کے فسانے نکل آئے

پتھریلی زمینیں تھیں، مگر حوصلہ سچا

ہم تیشہ لئے پیاس بجھانے نکل آئے

اک ناوکِ بے نام تھا ہر روز عقب سے

ہم باندھ کے سینوں پہ نشانے نکل آئے

گھر سے نہ نکلنا بھی روایت تھی ہماری

بس اپنی روایات بچانے نکل آئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]