اردوئے معلیٰ

مر گیا ہے وہ خداوند کہ جس کے پیرو

اس کو لافانی سمجھتے ہوئے پوجا کرتے

بے زباں ہو کے پڑا ہے وہی یکتائے سخن

جس کے قدموں پہ کڑے حرف بھی ماتھا دھرتے

 

اور وہ رشکِ سخن ، نازِ سخن آرائی

اس خموشی سے مرا ہے کہ خبر بھی نہ ہوئی

شاعری بال بکھیرے ہوئے بھاگی لیکن

راستوں میں ہی رہی زادِ سفر بھی نہ ہوئی

 

تختِ طاؤس پہ ساکت جو پڑا ہے، وہ ہے

بولتا تھا تو سخن جس کی بلائیں لیتا

بے کفن لاش ، شہنشاہِ بیاں کی ہے کہ جو

اپنے حرفوں سے تخیل کو ردائیں دیتا

 

اس کے اکڑے ہوئے ہاتھوں میں ابھی تک گویا

چند مصرعے ہیں کہ دھاگوں کی طرح لٹکے ہیں

اس کی بے نور نگاہوں میں خلا کی وسعت

اس کے الجھے ہوئے بالوں میں قمر اٹکے ہیں

 

سہرِ تخلیق پہ اک سوگ کا عالم طاری

دم بخود شعر ہیں الفاظ کے معنی چپ ہیں

سہمی سہمی ہوئی غزلوں کی ہراساں نظریں

اپنی ہستی پہ پشیمان ہیں یعنی چپ ہیں

 

اپنے معبود کی جانب جو نظر اٹھ جائے

اپسراؤں کے بدن کانپ کے رہ جاتے ہیں

اور دربارِ تخیل کے پری زاد سبھی

اپنی آنکھوں کو فقط ڈھانپ کے رہ جاتے ہیں

 

بے ردا خواب جھکائے ہوئے سر بیٹھے تھے

اس کے قدموں میں کہ جو خواب لیے خاک ہوا

دفعتاً ایک عجب طور سے منظر بدلا

اورمعبودِ گزشتہ کا بدن چاک ہوا

 

کھل گیا سینہ ، خداوندِ سخن کا یک دم

اور اندر سے نمودار ہوا اک انساں

ایک انسان، بہت عام سا انسان کوئی

سخت کمزور ، گنہگار ، پشیماں ، لرزاں

 

ہو بہو نقش وہی ، رنگ وہی ، روپ وہی

دیکھنے میں تو بظاہر ہے خداوند نما

وہ ہی قامت وہی چہرہ وہی لاریب دہن

وہ ہی صورت وہی انداز وہی طرز و ادا

 

صرف یہ عام سا انساں کہ زمیں زاد ہوا

اوجِ افلاک تلک جرآتِ معراج نہیں

اس کا ہم شکل بھی ہمنام بھی ہم عمر بھی ہے

فرق اتنا ہے کہ اب سر پہ کوئی تاج نہیں

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات