اردوئے معلیٰ

سر بہ زانو ہے ، شکستہ ہے خداوندِ سخن

سر جھکائے ہوئے خاموش کھڑے ہیں اشعار

قافیے گنگ ، سراسیمہ پریشاں بحریں

اور سمٹی ہوئی بیٹھی ہیں جھجھکتی افکار

 

صرف سانسوں کی صدا گونج کے رہ جاتی ہے

موت کا سوگ کہ طاری ہے سرِ قصرِ سخن

گاہے گاہے کبھی اٹھ جاتی ہیں خالی آنکھیں

جھرجھری سی کبھی لیتا ہے تخیل کا بدن

 

ہُو کا عالم ہے سرِ کوچہ و بازارِ جنوں

رقص کرت ہوئے درویش سبھی سنگ ہوئے

کپکپاتے ہیں ٹھٹھرتے ہوئے شعلے خوں کے

قافیے بحرِ طلسمات کے سب تنگ ہوئے

 

سخت بھاری ہے سماعت پہ اذیت کا سکوت

خامشی ہے کہ چٹختی ہے جہاںِ فن میں

استعارے ہیں کہ بے جان پڑے تکتے ہیں

ایک کہرا سا معلق ہے گمانِ فن میں

 

اور اس حال میں ، اک نظم کہ جو اپنے تئیں

کچھ مقرب تھی، بڑھی ، حوصلہ کرت کرتے

بعد تعظیم ، گلا صاف کیا ، اور بولی

عرض کرتی ہوں خداوند میں ڈرتے ڈرتے

 

ہم ترے شعر ، ترے ہاتھ کے ترشے قالب

تیری تخلیق کا اعجاز ، ترے شاہ پارے

تیری عظمت کے دلائل ، ترے ہونے کی وجہ

تیرے مغرور فلک بوس چمکتے تارے

 

ہم ترا نقش ، ترا عکس ، ترا ہی پرتو

ہم تری ذات کا حصہ ہیں ازل سے اب تک

تیرا حصہ ہیں مگر ہم بھی نہیں سمجھے ہیں

کیا ہوا ہے تری سرکار میں کل سے اب تک

 

تو نے اک "​ارضی محبت”​ پہ نچھاور کر کے

اپنی توقیر کی تذلیل گوارا کر لی؟

تو خداوندِ سخن ، کاہکشاں راہ تری

تو نے کس خاک میں تشکیل گوارا کر لی؟

 

تیرے پندارِ خدائی کا شکستہ ہونا

وہ بھی اک خاک زدہ خاک نشیں کے ہاتھوں؟

ہم بھلا کس طرح مانیں کہ گریبان ترا

یعنی افلاک ، ہوا چاک زمیں کے ہاتھوں؟

 

تو اگر مدِ مقابل ہو تو اوروں کی طرف

دیکھ سکتا ہے بھلا کیسے پلٹ کر کوئی؟

حسن، ممکن ہے ترے حسنِ بیاں سے آگے؟

رنگ، ممکن ہے ترے رنگ سے ہٹ کر کوئی؟

 

چل رہا ہو ترے الفاظ کا جادو جس پر

راہ چلتوں کی صداؤں پہ رکے گا کیسے؟

جس کے ماتھے پہ ترے پیار کا جھومر چمکے

وہ کسی اور کی چوکھٹ پہ جھکے گا کیسے؟

 

تو جہاں بول رہا ہو تو یہ ممکن ہی نہیں

کوئی بھی حرف ، کوئی لفظ مقابل ٹھہرے

تو فلک زاد ، فلک بوس ، فلک سے اونچا

رینگنے والے بھی کیا اب ترے قاتل ٹھہرے؟

 

تو خداوندِ سخن اُس کے مقابل چپ ہے؟

خاکِ پاء تک بھی ترے ذات نہ ہو گی جس کی

تیری چاہت کے لبادوں کو اتارا کس نے؟

ایک کوڑی کی بھی اوقات نہ ہو گی جس کی

 

گر خداوندِ سخن ، مات تجھے ہوتی ہے

تو نہ جائے گا ، کہ پھر کون و مکاں جائیں گے

تیری تذلیل اگر دہر میں ممکن ٹھہری

تیرے افکار ، ترے شعر کہاں جائیں گے؟

 

اس قدر کہتے ہوئے پھوٹ کے رو دیتی ہے

ہچکیاں باندھتے آواز ہی پھٹ جاتی ہے

اپنے پتھرائے خداوند دستِ تخلیق

چومتی نظم بھی قدموں سے لپٹ جاتی ہے

 

اور پھر اٹھتی ہیں کھوئی ہوئی خالی آنکھیں

جھرجھری سی کہیں لیتا ہے تخیل کا بدن

ہونٹ ہلتے ہیں مگر بات نہیں کر پاتا

سر بہ زانو ہے ، شکستہ ہےخداوندِ سخن

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات