امکان جس قدر مرے صبح و مسا میں ہیں
شکرِ خدا کہ سارے حریمِ ثنا میں ہیں
خود رفتگی کی صورتِ حیرت ہے چار سُو
منظر نظر نواز ترے نقشِ پا میں ہیں
شاید کہ تھام لائی ہے خاکِ کرم کا لمس
احساس ہُوبہُو وہی بادِ صبا میں ہیں
اِک رتجگے کے روگ میں ڈھلتی رہی حیات
تسکیں کے سلسلے ترے خوابِ لقا میں ہیں
حرفِ نیاز و عجز پہ ُکچھ ناز ہے مجھے
اِذنِ کرم میں ہیں، ترے دستِ عطا میں ہیں
حسنِ کرشمہ ساز کے اظہار دم بہ دم
صحنِ بقا میں ہیں، کبھی دشتِ فنا میں ہیں
مقصودؔ آؤ اُس درِ رحمت پہ جا رہیں
سب چشمہ ہائے خیر ہی جس کی رضا میں ہیں