انجامِ التجا، شبِ غم کی سحر پہ ہو
الطافِ خاص آج مری چشم تر پہ ہو
عشاق سر بلند رہیں کائنات میں
خاک درِ رسول کی دستار سر پہ ہو
سالار قافلہ ترا نقشِ قدم رہے
جتنا سفر ہو اب، وہ تری رہگزر پہ ہو
معراجِ آرزو ہے کہ دیکھوں درِ حبیب
اک نعت کاش روضۂ خیر البشر پہ ہو
نکلے بدن سے جان تو لب پر ہو تیرا نام
ٹھہرے مری نظر تو نظر تیرے در پہ ہو