ان کی رحمت دلیل ہو جائے
عشق میرا وکیل ہو جائے
کاش آ جائے موت طیبہ میں
یہ رفاقت طویل ہو جائے
ان کے دیدار کی تمنّا میں
آنکھ رو رو کے جھیل ہو جائے
گر ملے آپ کی رضا مجھ کو
آخرت بھی جمیل ہو جائے
ذکرِ احمد کو حرزِ جاں کر لو
فکر جب بھی علیل ہو جائے
جو ہے گستاخ ان کا دنیا میں
تا ابد وہ ذلیل ہو جائے
نعتِ سرکار کے لیے زاہدؔ
عمر میری طویل ہو جائے