اردوئے معلیٰ

ان کی ذاتِ اقدس ہی ، رحمتِ مجسم ہے

عرش پر معظّم ہے ، اور فخرِ عالم ہے

 

یہ شرف ملا کس کو ، فرش کے مکینوں میں

قدسیوں کی محفل میں ، ذکر ان کا پیہم ہے

 

مخزنِ تقدس ہے ، چشم پُر حیا اُن کی

گیسوئے حسیں اُن کا ، نرم مثلِ ریشم ہے

 

قطرۂ عرق روشن ، یوں ہے اُن کے چہرے پر

پھول کی ہتھیلی پر ، جیسے دُرِّ شبنم ہے

 

بے مثال سیرت ہے ، اُن کی ڈھونڈتے کیا ہو

انبیا میں افضل ہے ، اکرم و مُکرّم ہے

 

اُن کے جہدِ پیہم سے ، انقلابِ نو آیا

شرک کو ندامت ہے ، اور کفر برہم ہے

 

اُن کی مدح میں آگے ، اور کیا لکھے ساحلؔ

اِس کی عقل ناقص ہے ، اِس کا علم بھی کم ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ