ان کی ذاتِ اقدس ہی ، رحمتِ مجسم ہے
عرش پر معظّم ہے ، اور فخرِ عالم ہے
یہ شرف ملا کس کو ، فرش کے مکینوں میں
قدسیوں کی محفل میں ، ذکر ان کا پیہم ہے
مخزنِ تقدس ہے ، چشم پُر حیا اُن کی
گیسوئے حسیں اُن کا ، نرم مثلِ ریشم ہے
قطرۂ عرق روشن ، یوں ہے اُن کے چہرے پر
پھول کی ہتھیلی پر ، جیسے دُرِّ شبنم ہے
بے مثال سیرت ہے ، اُن کی ڈھونڈتے کیا ہو
انبیا میں افضل ہے ، اکرم و مُکرّم ہے
اُن کے جہدِ پیہم سے ، انقلابِ نو آیا
شرک کو ندامت ہے ، اور کفر برہم ہے
اُن کی مدح میں آگے ، اور کیا لکھے ساحلؔ
اِس کی عقل ناقص ہے ، اِس کا علم بھی کم ہے