اوجِ شرف تک آپ کے پہنچے نظر کہاں
طے کر سکے خیال بھی اتنا سفر کہاں
پانی میں بھی ہے آب پہ آبِ گہر کہاں
فردِ بشر کہاں یہ، وہ خیر البشر کہاں
پائے حقیقتوں کو یہ عقلِ بشر کہاں
مانے بغیر اس کو کسی کو مفر کہاں
اللہ رے یہ رعبِ جمالِ محمدی
دیکھا ہے ساتھیوں نے مگر آنکھ بھر کہاں
حسن و جمالِ یوسفِ کنعاں صد آفریں
لیکن کمالِ حسنِ شہِ بحر و بر کہاں
دیکھی ہے ماہتاب کی ہم نے کرن کرن
اس رشکِ ماہتاب کی کرنیں مگر کہاں
آئے ہیں رہبری کو ہزاروں پیامبر
ان سا مگر یہ حق ہے کوئی راہبر کہاں
بخشا ہے دشمنوں کو کھلے دل سے آپ نے
جو ان میں ہے وہ حوصلۂ درگزر کہاں
ٹپکے جو ان کی یاد میں آنسوز چشمِ تر
ان کے مقابلے میں ہیں لعل و گہر کہاں
پہنچوں جو ان کے در پہ تو اٹھنے کا میں نہیں
مجھ کو نہیں دماغ پھروں در بدر کہاں
ان کی نگاہِ لطف کا امیدوار ہوں
شوقِ سفر نظرؔ ہے پہ رختِ سفر کہاں