اردوئے معلیٰ

اُسی حوالے سے ہر بار میں نشانہ ہوا

جسے بھلائے ہوئے بھی مجھے زمانہ ہوا

 

یہ خوئے دربدری تو مرے مزاج میں تھی

کسی کا مِل کے بچھڑنا تو اک بہانہ ہوا

 

نکل سکا نہ اک اندیشۂ فراق سے عشق

خیالِ وصل کبھی حرفِ مدعا نہ ہوا

 

وفا تو محوِ ستائش تھی اس کو کیا معلوم

جمالِ یار حقیقت سے کب فسانہ ہوا

 

کسی نرالے سے گاہک کے انتظار میں دل

دکان درد پہ رکھے ہوئے پرانا ہوا

 

کوئی بتائے مجھے کاروان عمرِ رواں

کہاں سے آیا، کدھر ٹھہرا، کب روانہ ہوا

 

یہ بستیاں ہیں جو راہوں میں قافلے تھے کبھی

جہاں پہ رک گیا کوئی وہیں ٹھکانہ ہوا

 

عجیب شہر تھا جس نے دیارِ ہجرت میں

مجھے بنا لیا اپنا مگر مرا نہ ہوا

 

مری وفاؤں کا سودا مری ضرورت سے

کچھ اس طرح سے ہوا ہے کہ دل بُرا نہ ہوا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات