اُس ایک ذات کی توقیر کیا بیاں کیجے
وہی ہے نکتۂ ایماں اگر گماں کیجے
نظر کو خیرہ کرے چاندنی میں اک تارا
جو روبرو کبھی تصویرِ آسماں کیجے
اُسی کو دیکھیے بزمِ ولا میں صدر نشیں
اُسی کے اسمِ مبارک کو حرزِ جاں کیجے
اُسی سے کہیے کہ ہے سر پہ دُھوپ محشر کی
اُسی کی ذاتِ گرامی کو سائباں کیجے
وہ دل کی سمت جو آئیں تو اپنی آنکھوں کو
زمین کیجے، عقیدت کو آسمان کیجے
جو دل میں ہے شررِ آرزو بھڑک اُٹّھے
اس ایک لفظِ محبت کو داستاں کیجے