اردوئے معلیٰ

اُن کو بھی خوفِ حشر ہے کیونکر لگا ہوا

حامی ہے جن کا شافعِ محشر لگا ہوا

 

طائر وہی خیال کا، پہنچا ہے اُن کے در

جس کو ہے اسمِ نور کا شہپر لگا ہوا

 

آتے ہیں ان کے در پہ زمانے کے بادشہ

جن کا تری گلی میں ہے بستر لگا ہوا

 

مہکے ہیں ایسے حلقے درودوں کے بے شبہ

گویا کہ بام و در پہ ہے عنبر لگا ہوا

 

منصب کسی کا اُس کے مقابل ہو کیا بھلا

جو سارے انبیا کا ہے افسر لگا ہوا

 

اُس سر زمیں کا دہر میں ثانی کہاں بھلا

ہے جس زمیں پہ گنبدِ اخضر لگا ہوا

 

غم اُن کو جا سنائیں گے ہم بھی جلیل جی

طیبہ میں ہے حضور کا دفتر لگا ہوا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔