اِذن دے دیجیئے اک بار مرے آقا جی
آپ کا دیکھ لوں دربار مرے آقا جی
مجھ پہ بھی اپنی عنایات کی بارش کیجے
جھولی بھر دیجیئے سرکار مرے آقا جی
ڈوب سکتا ہی نہیں میرا سفینہ اب تو
ناخدا آپ ہیں سردار مرے آقا جی
مرے دل میں ، مری آنکھوں میں سما جائیے اب
کب سے ہوں میں بھی طلبگار مرے آقا جی
راہ میں تارے بچھاتے ہیں ملائک اُن کی
آپ کے جو بھی ہیں حبدار مرے آقا جی
اپنے میخانے سے اک جام عطا کر دیجے
تشنہ لب ہے یہاں مے خوار مرے آقا جی
اے طبیب آئیے ، آجائیے اب سائل یہ
ہے گناہوں میں گرفتار مرے آقا جی
جشنِ میلاد کی محفل ہے سجی گھر ، گھر میں
شاد ہیں آپ کے حبدار مرے آقا جی
ہاں حسین و حسن و فاطمہ کے صدقے میں
اب رضاؔ کو بھی ہو دیدار مرے آقا جی