اِس خانۂِ ظلمت کو اجالا ہو میسّر
’’ سینے کو مِرے نقشِ کفِ پا ہو میسّر ‘‘
ممکن ہے کہ پھر لوح کا لکّھا بھی میں دیکھوں
گر خاکِ درِ شاہ کا سرمہ ہو میسّر
ہو جائے اگر ساقیِٔ کوثر کی نوازش
قطرے کو نہ کیوں وسعتِ دریا ہو میسّر ؟
کیا چیز چھپی ہے مِرے اُمّی لقبی سے ؟
رحمان سے جس ذات کو پڑھنا ہو میسّر
اِک حکمتِ معراج ، کہ تھی عرش کو حسرت
اُن کے قدمِ ناز کا بوسہ ہو میسّر
گر شقِّ قمر ان سے ہو کیا اِس میں تعجب ؟
جب چاند کا بچپن میں کھلونا ہو میسّر
اَمثالِ زلیخا تو چُھری دل پہ چلا دیں
سرکار ! اگر جلوہ تمہارا ہو میسّر
حسنین میں پیغمبری انداز نہ کیوں ہوں ؟
محبوب محمد جنہیں نانا ہو میسّر
ہوتا ہے جو ، وہ اصل میں ہوتا ہی نہیں ہے
ہوتا ہے وہی ، جس کو نہ ہونا ہو میسر
کہتے ہیں اسے مشک کا گھر اہلِ مدینہ
جس گھر کو مِرے گل کا پسینہ ہو میسّر
چوموں گا قدم اس کے میں اور لوں گا بلایں
گر کوچۂِ محبوب کا کتّا ہو میسّر
کانٹا نہ چبھے حکم عدولی کا کوئی بھی
یوں مجھ کو رہِ نعت پہ چلنا ہو میسّر
در پر جو میں آؤں تو نکل جائے وہیں دم
سونے پہ مجھے پھر تو سہاگہ ہو میسّر
ہے دفن یہاں ایک سگِ درگہِ احمد
تُربت کو مِری کاش یہ کتبہ ہو میسّر
کر پائے کوئی بال بھی بیکا تِرا کیسے ؟
جب رب سے تجھے عہدِ ” کَفَینا ” ہو میسّر
پِھر کون کرے پست تِری شان ؟ تجھے جب
اللّٰہ کی جانب سے رَفَعنا ہو میسّر
پھر کیوں نہ معظمؔ سے گنہگار ہوں مغفور ؟
جب آپ کو ” یُعطیکَ فَتَرضیٰ ” ہو میسّر