اردوئے معلیٰ

اِک میں ہی نہیں اُس پر قربان زمانہ ہے

جو رَبِّ دو عالم کا محبوب یگانہ ہے​

 

کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے

زہرہ کا وہ بابا ہے سبطَین کا نانا ہے​

 

اُس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں

جو حُسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے​

 

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نامِ محمد پر

ہم نے کسی دن یوں بھی دُنیا سے تو جانا ہے​

 

آؤ در زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن

ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانہ ہے​

 

ہوں شاہ مدینہ کی میں پشت پناہی میں

کیا اس کی مجھے پرواہ دشمن جو زمانہ ہے​

 

یہ کہہ کے در حق سے لی موت میں کچھ مہلت

میلاد کی آمد ہے محفل کو سجانا ہے​

 

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دِن جس نے

اِس اُمت عاصی کو کملی میں چھپانا ہے​

 

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو حیرت کیا

بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے​

 

ہر وقت وہ ہیں میری دُنیائے تصوُّر میں

اَے شوق !کہیں اَب تو آنا ہے نہ جانا ہے​

 

پُر نور سی راہیں ہیں گنبد پہ نگاہیں ہیں

جلوے بھی اَنوکھے ہیں منظر بھی سُہانا ہے​

 

ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رُو دادِ اَلم اپنی

جب اُن کا کہا خود بھی اَللہ نے مانا ہے​

 

محرومِ کرم اِس کو رکھیے نہ سرِ محشر

جیسا ہے نصیر آخر سائل تو پُرانا ہے​

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔