آئِنہ چیز ہے کیا ، چاند نہ ہمسر ہوتا
کاش میں کوچۂ سرکار کا پتھر ہوتا
ڈال دیتا مجھے طیبہ میں مقدر میرا
زندگی میں مری یہ واقعہ اکثر ہوتا
وہ نہ ہوتے تو کہاں خلقت عالم ہوتی
وہ نہ ہوتے تو کہاں کوئی پیمبر ہوتا
میرے آقا نہ لٹاتے جو شفاعت کے گہر
ایک بے کیف سا منظر سر محشر ہوتا
چاہنے والا جو آقا کا بہاتا آنسو
ہر طرف صرف سمندر ہی سمندر ہوتا
آپ اگر چل کے دکھاتے نہ زمانے کو حضور
تو مسافر، نہ گذرگاہ، نہ رہبر ہوتا
راحتیں پاؤں مرے چومنے آتیں اے نورؔ
سایۂ گنبد خضریٰ جو میسر ہوتا