آئیں اب شاعری کی لے کر آڑ
اس غزل میں اگائیں ڑ کے پہاڑ
سیر دشت سخن کی ایسے کریں
کلک خامہ پہ ڈال جائے دراڑ
کام کرتا نہیں ہے کوئی یہاں
دفتروں میں ہے بس اکھاڑ پچھاڑ
اپنی نظروں سے دیکھ باس ہے گر
بند ہر گز نہ کان کے ہوں کواڑ
اس کا لاہور سے تعلق ہے
ہے تکلم میں اس کے ڑ کی پھواڑ
سیدھے رستے پہ کوئی چلتا نہیں
کرتی رہتی ہے سای قوم جگاڑ
تاڑ کے مت یہاں اگاؤ درخت
بیٹھ جائیں گے پیر کاکی تاڑ
اتنا پہلو بدلنا ٹھیک نہے
چارپائی کی ٹوٹتی ہے نواڑ
کیا کریں ان کا ہم جو فیشن میں
خود ہی لیتے ہیں اپنے منہ کو بگاڑ
نوحہ اپنی زباں کا کیوں نہ کروں
جب نظر بازی بن گئی ہو تاڑ